Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر

”شکر ہے بدھو لوٹ کر گھر تو آیا ،یہی ہوتا ہے جب تک مرد کو خود ٹھوکر نہیں لگتی وہ عورت کو گرا ہوا سمجھتا ہے ،غلطی سے کی گئی بھول کو بھی معاف کرنا اپنی مردانگی کی توہین سمجھتا ہے۔“ فاخر کے متعلق جان کر وہ رنجیدہ لہجے میں گویا ہوئی تھیں۔
”خیر جانے دو آپی! جو ہوا اچھا ہوا اس طرح دھوکہ کھا کر وہ کم از کم عائزہ کی جانب پلٹ تو آیا ہے ورنہ… رمشا کو چھوڑ کر وہ کہاں آنے والا تھا ،یہ تو کوئی نیکی ہی کام آئی ہے۔
”یہ بات تو سچ ہے نہ رمشا کی مکاری کھلتی نہ میری عائزہ کے سوئے مقدر جاگتے ،لیکن عائزہ کا اب ردعمل کیا ہوگا؟ وہ فاخر کے ساتھ کس طرح پیش آئے گی ،معلوم نہیں؟“
”پھر بھی کوئی آئیڈیا تو ہو گا آپ کو اس کے موڈ کا ،وہ کوئی بات کرتی ہو گی فاخر کے متعلق؟ کچھ کہتی تو ہو گی ناں…؟“
”نہیں ،اس معاملے میں اس نے منہ پر مہر لگائی ہوئی ہے اور کبھی میں نے خود بات کرنے کی کوشش بھی کی تو اس نے یہی کہا کہ میں نے اپنا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا ہے جو اللہ فیصلہ کرے گا وہ منظور ہو گا۔


”اور اللہ نے کتنا اچھا فیصلہ کیا ہے اور یہ بھی اچھا ہی ہوا کے عائزہ نے پہلی رات فاخر کو سب سچ سچ بتا دیا تھا ،فاخر کا کوئی کولیگ اس بلڈنگ کے فلیٹ میں رہتا تھا ،اس نے بتایا تھا کہ راحیل کو اس کی پاگل ماں نے لوہے کی سلاخ مار مار کر قتل کر دیا تھا اور خود بھی مر گئی تھی ،کئی دنوں تک ان کی لاشیں وہاں سڑتی رہیں جب تعفن پھیلا تو لوگوں کو خبر ہوئی اور پھر پولیس نے لاشیں اٹھائیں۔
”اچھا… اوہ کہیں کسی نے عائزہ کو وہاں سے آتے یا جاتے نہیں دیکھا پھر یہ کس طرح معلوم ہوا راحیل کی ماں نے اسے مارا ہے؟“ صباحت کے چہرے پر کئی رنگ پھیل گئے تھے۔
”پوسٹ مارٹم رپورٹ اور پھر سلاخ پر اس کی انگلیوں کے نشان سے ثابت ہوا اور ڈرو نہیں ،عائزہ کا کوئی ذکر نہیں تھا حالانکہ فاخر نے اس لڑکے سے خاصی تفصیل سے یہ واقعہ سنا تھا۔
”یہ سب میرے پروردگار کی کرم نوازیاں ہیں زینی! رب نے کس طرح میری بیٹی کی بے گناہی و پاک دامنی کو فاخر کے سامنے ظاہر کروایا ،اس کا کولیگ ایک عام سی بات کر رہا تھا ،انجانے میں وہ کتنی خاصی بات کی گواہی دے گیا، بہت بڑی نیکی سمیٹ گیا وہ۔“
”اسی وجہ سے فاخر کا سارا شک و وہم دور ہوا ہے اب آپ بتاؤ میں عائزہ کو اسے لینے کب بھیجوں؟ وہ جلدی واپس جائے گا۔
”وہ تمہاری بات مانتی ہے ،تم خود اس سے بات کرو ،تم اچھے سے سمجھا سکتی ہو اس کو ،میں تو چاہتی ہوں وہ اپنے گھر کی خوش رہے۔“
”اچھا آپ اس کو کچھ بھی مت بتایئے گا ،کل میرے پاس گھر بھیج دیں عائزہ کو میں خود اس سے بات کر لوں گی۔“
”ہوں… میں اس کو فاخر کے آنے کا بھی نہیں بتاؤں گی۔“
”آپی! عادلہ کا کیا حال ہے ،شیری کی طرف سے کوئی امید بندھی یا وہ ابھی بھی اسی طرح انکار کر رہا ہے؟“ وہ اٹھتے اٹھتے یاد آنے پر پھر سے بیٹھتے ہوئے بولیں۔
”اس نے پلٹ کر دیکھا بھی نہیں میں سوچ رہی ہوں مسزی عابدی کے سامنے جا کر سارا معاملہ رکھوں۔“
”یہ عادلہ کی بے عزتی ہے آپی! وہ اس طرح کبھی بھی ان کے دل میں جگہ نہیں بنا پائے گی۔“
###
نامعلوم یہ خواب تھا یا حقیقت یا… تصورات کا کوئی شاندار بہروپ؟
آف وہائٹ شلوار سوٹ پر بلیک واسکٹ زیب تن کئے نفاست سے بال سنوارے ،خوشبوؤں میں بسا ،لبوں پر شفیق مسکراہٹ سجائے آنسو بھری آنکھوں سے وہ یک ٹک اسے دیکھ رہا تھا۔
چند لمحے خواب کی کیفیت میں وہ اسے دیکھتی رہی ،وہ کھویا کھویا اسے تک رہا تھا ،پھر اس نے پلکیں جھپکی تھیں خواب کی کیفیت سے بیدار ہوئی تھیں اور آہستہ آہستہ آگے بڑھنے لگی تھی۔
نہ وہ ہم تھا… نہ ہی فریب تھی… نہ ہی تصورات کا کوئی جھوٹا کرشمہ… وہ جیتا جاگتا گلفام تھا ،جو اس کی خوشبو پاکر اس تک آ گیا تھا۔
”گل… فام…“ قریب جا کر اس کے لب پھڑپھڑا کر رہ گئے۔
”ماہ… رخ… شکر ہے تم واپس آ گئی ہو۔“ وہ ایک لمحے کیلئے اس کے قریب جا رکی تھی اور دوسرے لمحے وہ اس کے سینے سے لگ کر رو رہی تھی ،اس کی آواز اس پورے اپارٹمنٹ میں گونج رہی تھی ،وہ چیخ چیخ کر رو رہی تھی ،سارے دکھ ،تمام پچھتاوے ،حسرتیں و صدمے ،اپنوں کو کھونے کا غم ،خود کو گنوانے کا رنج صدمہ در صدمہ تھا ،دل تھا کہ پھٹے جا رہا تھا ،ایک آگ تھی جو جلا رہی تھی ،ایک درد تھا جو تڑپا رہا تھا ،وہ بکھر رہی تھی ٹوٹ رہی تھی دل کو کسی طرح قرار نہ تھا۔
”گلفام کے آنسو بھی خاموشی سے بہہ رہے تھے ،حالت اس کی بھی ایسی ہی تھی اس کی جدائی کے درد میں وہ بھی اسی طرح تڑپا تھا ،اس کی جدائی کی آگ اسے بھی راکھ کرتی رہی تھی مگر وہ مرد تھا بہادر و ہمت اس کی طرح حوصلہ نہیں توڑ سکتا تھا سو اس کے بکھرے وجود کو وہ سنبھال رہا تھا ،سہارا دے رہا تھا۔
”بس اب چپ جاؤ ماہ رخ! دکھ کی سیاہ رات بیت چکی ہے ،اب تو سکھ کا روشن سویرا پھیلنے کو ہے ،ہماری تقدیر کا سورج اب مسرتوں کی کرنیں لے کر نمودار ہونے والا ہے۔
“ وہ اسے علیحدہ کرتے ہوئے پیار بھرے لہجے میں گویا ہوا۔
”میں تم سے یہ نہیں کہہ سکتی گلفام! مجھے معاف کر دو ،جو میں نے کیا وہ معاف کرنے کے لائق نہیں ہے اس کی سزا تو میری روح کو بھی بھگتنی پڑے گی ،میں نے بیٹی کی ناموس کو ہی داغدار کر دیا ہے۔“ وہ خود کو سنبھالتے ہوئے رنجیدہ لہجے میں گویا ہوئی تھی۔
”میں نے جو کیا وہ ناقابل معافی ہے بہت بری ہوں میں…“ گلفام اس کی بات کاٹ کر اپنائیت بھرے لہجے میں گویا ہوا۔
”پلیز… رخ! تم پر جو گزری ہے وہ سب مجھے اعوان صاحب بتا چکے ہیں ،مجھے بے حد افسوس ہے تم کو اپنے کئے کی سزا بہت زیادہ ملی ہے۔“
”مجھے معلوم تھا تم ابھی بھی ایسے ہی ہو گے ،نرم خو ،گداز دل ،درگزرنے والے ،بنا کسی کے معافی مانگے معافی کر دینے والے لیکن مجھے معاف نہیں کرو میرا جرم بہت بڑا ہے۔“
”مت دہراؤ بار بار ان باتوں کو ماہ رخ! جب میں ان باتوں کو کوئی اہمیت نہیں دیتا تو تم کیوں سوچ رہی ہو؟“ اس نے بے پروا انداز میں کہا تھا۔
###
نانو اور ممی اس سے از حد محبت سے ملی تھیں ،طغرل کی بھی کشادہ دلی سے پذیرائی کی تھی وہ ان کے اصرار پر کافی پینے کیلئے رک گیا تھا ،اس دوران خوشگوار ماحول میں باتیں ہوتی رہی تھیں۔
”اوہ… ٹائم زیادہ ہو گیا ہے ،نانو! آنٹی اجازت دیں مجھے ،دادی جان انتظار کر رہی ہوں گی۔“ وہ موٴدب میں ان کو دیکھتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا تو ان کو بھی اٹھنا پڑا تھا
”جی ،ٹائم تیزی سے گزر گیا اور پتا ہی نہیں چلا ،اس ویک اینڈ پر صفدر پاکستان آ رہے ہیں ان کے آنے پر ہم گرینڈ پارٹی دیں گے ،آپ کی منگنی کی خوشی میں تیار رہئے گا آپ۔
“ مثنیٰ نے اس کی پیشانی چومتے ہوئے کہا تھا۔
”کیوں نہیں آنٹی! آپ انوائٹ کریں گی تو میں ضرور شرکت کروں گا۔“
”وہ پارٹی ہو گی ہی آپ کے اور پری کے آنر میں بیٹا! آپ دونوں کی موجودگی ضروری ہے اس میں اور اگر آپ کسی کو لانا چاہیں تو شوق سے لے کر آیئے گا ،ہمیں خوشی ہو گی۔“ عشرت جہاں نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے شفقت سے کہا۔
”جی ضرور۔
“ وہ ان سے اجازت لے کر آگے بڑھا تو مثنیٰ نے خاموش بیٹھی پری سے کہا کہ وہ طغرل کو گیٹ تک چھوڑ کر آئے وہ جھینپی جھینپی سی اس کے ساتھ چلی آئی تھی۔ وسیع و عریض لان عبور کرکے وہ پورٹیکو تک پہنچنے والے ہی تھے کہ طغرل نے رک کر اس کا بازو تھام کر کہا۔
”تمہاری بولتی کیوں بند ہو گئی ہے ،یہاں آتے ہی؟“ وہ خاصا ڈسٹرب لگ رہا تھا اس کی خاموشی سے۔
”اب میں نانو اور ممی کے سامنے کیا بولتی بھلا آپ کی باتیں سن رہی تھی اور آپ اپنے آگے کسی کو بولنے کا موقع کب دیتے ہیں۔“ وہ شوخی سے گویا ہوئی تھی جبکہ طغرل اس کی ہنسی پر مبہوت سا رہ گیا تھا۔
”ارے کیا ہوا ایسے کیوں دیکھ رہے ہیں؟‘ اسے اس طرح مسلسل اپنی طرف دیکھتا پا کر وہ نروس ہو گئی تھی۔
”دیکھ رہا ہوں ،تم ہنستی ہوئی کتنی کیوٹ لگتی ہو ،پارس! ہنستی رہا کرو ،تمہاری ہنسی ،دلکش مسکراہٹ میری سانسوں کو تازہ کر گئی ہے۔
“ وہ ایک جذب کے عالم میں اس کا ہاتھ تھامے کہہ رہا تھا۔ وہ سچ مچ شرما کر رہ گئی تھی۔
آج اس کی قربت سے اسے وحشت نہیں ہو رہی تھی ،تنہائی کسی وسوسہ میں مبتلا نہیں کر رہی تھی وہ لان میں اس کے اتنی قریب کھڑی تھی کہ اس کی سانسیں اس کے چہرے کو چھور رہی تھیں۔
”ایک بات پوچھوں سچ مچ بتائیں گے آپ؟“ وہ ایک دم سنجیدگی سے گویا ہوئی تھی۔
”ہوں… پوچھو ،سچ بتاؤں گا۔“ وہ چونکا تھا۔
”یہ بات پہلے آپ نے کتنی لڑکیوں سے کہی ہے؟“ وہ مسکراتی شوخی سے گویا ہوئی۔
”سچ سنو گی ،بتاؤں تمہیں…؟“ وہ سنجیدہ ہو کر اس کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا بولا۔
”ہوں…“ اس کا دل دھڑک اٹھا ،وہ یہی کہہ سکی۔
”قسم سے یہ بات آج اور ابھی میری لائف میں آنے والی پہلی اور آخری لڑکی سے کہی ہے ،تم یقین کرتی ہو پارس۔
“ وہ مسکراتے ہوئے بوجھل لہجے میں بولا اور اس کی رکی ہوئی سانس بحال ہوئی تھی ،وہ بلش ہو کر رہ گئی۔
”بتاؤ ناں ،تمہیں میری محبت پر ،میرے جذبوں پر یقین ہے یا اب بھی مجھے ایسا ویسا گرا ہوا انسان سمجھتی ہو؟“
”میں آپ کے پاس ہوں ،آپ کے ساتھ ہوں ،میری انگلی میں آپ کے نام کی انگوٹھی ہے ،یہ ثبوت نہیں ہے کیا میرے اعتبار کا؟ اور کیا چاہتے ہیں آپ ،کس قسم کا اقرار چاہتے ہیں آپ؟“ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے جذبات کا کھل کر اظہار کر گئی تھی اور طغرل یہی چاہتا تھا اس کے لبوں پر شریر مسکراہٹ دیکھ کر اسے ہوش آیا کہ کیا کہہ گئی ہے پھر وہ فوراً ہی وہاں سے بھاگ گئی تھی۔ طغرل کے قہقہے نے دور تک اس کا پیچھا کیا تھا۔

   1
0 Comments